سردیاں آتی ہیں تو ظاہر ہے سردی بھی لگتی ہے لیکن یہ موسم سب سے زیادہ بڑی عمر کے افراد کو ستاتا ہے کیونکہ عمر میں اضافے کے ساتھ ہمارے جسم حرارت کم پیداکرتا ہے تو سردی کے معاملے میں وہ بے حس بھی ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ سردیوں میں یہی بے حسی اور بے خیالی جان کی دشمن بن جائے۔ سردی میں اضافے کا احساس ہونے کی صورت میں سردی لگ جانے کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ جوانی کی طرح جسم حرارت زیادہ پیدا کرتا رہے تو اس کا خطرہ بھی کم رہتا ہے۔طبی اصطلاح میں اسے ’’کمی حرارت‘‘ کہتے ہیں اس میں جسم کی اندرونی حرارت کم ہوجاتی ہے۔ کمی حرارت کے اکثر مریض وہ بوڑھے افراد ہوتے ہیں جو ٹھیک طرح کھاتے پیتے نہیں ہیں اور جو سرد اور ٹھنڈے گھروں میں رہتے ہیں۔ کم حرارت کی شکایت چھوٹے بچوں میں بھی عام ہوتی ہے کیونکہ ان کا اپنے جسم کی حرارت پر کوئی بس اور قابو نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ شکایت ان افراد میں بھی عام ہوتی ہے جو غدہ ورقیہ کی سستی (ہائپو تھائرائڈزم) کی شکایت یا گنٹھیا میں مبتلا ہوتے ہیں۔ گنٹھیا کی وجہ سے چونکہ ان کے چلنے پھرنے کی صلاحیت بہت متاثر ہوتی ہے ان کے جسم میں حرارت کی کمی رہتی ہے۔ اسی طرح وہ تمام شکایات جس سے جسم کی حرکات سست پڑجاتی ہوں ان کا سبب بن سکتی ہے۔
عام علامات: جسم کی اندرونی حرارت 36.5 سنٹی گریڈ کے درمیان رہتی ہے جسم کی صحیح کارکردگی کیلئے جسم کا یہ درجہ حرارت بہت ضروری ہوتا ہے اس سے کم حرارت کی صورت ہی میں ہمیں سردی لگتی ہے اور اگر درجہ حرارت 35 سنٹی گریڈ ہوجائے تو کمی حرارت کی شکایت لاحق ہوتی ہے۔ اس کی عام علامات میں کپکپی یا جاڑا لگنے کی کیفیت قابل ذکر ہے۔ چہرے کی رنگت پیلی پڑجاتی ہے۔ جلد خشک‘ سانس مدہم ہوکر مریض کی حالت بگڑتی نظر آتی ہے اور وہ بدحواس سا نظر آتا ہے۔ بچے بے سدھ اور بے حرکت ہوجاتے ہیں۔ چھونے سے ان کا بدن ٹھنڈا لگتا ہے۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ بالکل صحت مند لگتے ہیں۔
اس حالت میں حالت چونکہ بتدریج بگڑتی ہے اکثر افراد کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس شکایت کا شکار ہیں بلکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں کہ انہیں گرمی لگ رہی ہے چنانچہ وہ اپنے جسم پر سے اضافی گرم کپڑے اتار دیتے ہیں اس عرصہ میں درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ 30 سینٹی گریڈ پر عضلات یعنی پٹھے اکڑجاتے ہیں اور بے ہوشی طاری ہوسکتی ہے۔ 27 سینٹی گریڈ پر زندگی کی چند علامات ہی باقی رہتی ہیں اور درجہ حرارت مزید گھٹ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں قلب کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ درجہ حرارت گھٹ جائے تو مریض کے زندہ ہونے کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ سانس اور قلب دونوں ہی کی رفتار بہت سست اور دھیمی ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ مریض کو گرم کیا جائے۔ اس طرح اس سلسلہ میں مختلف ابتدائی اقدامات اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے کہ وہ کھلے ماحول میں ہے یا کمرے میں۔ ان دونوں صورتوں میں سب سے پہلے احتیاط یہ ضروری ہے کہ اسے کسی بھی حالت میں الکحل نہ پلائی جائے۔ اکثر لوگ یہ غلطی کر بیٹھتے ہیں بلکہ بعض تو خصوصی طور پر گھر میں رکھتے ہیں کہ اگر کسی کو ٹھنڈ لگ جائے تو اسے الکحل پلائی جائے‘ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس سے شریانیں پھیلتی ہیں جس سے دوران خون بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مزید حرارت خارج ہوکر مریض کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
گھرمیں احتیاط: سخت جاڑوں کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ خاص طور پر سونے کے کمرے گرم رکھے جائیں۔ ان کا درجہ حرارت 64.4فارن ہیٹ ہونا چاہیے۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ صحیح غذا کھائیں اور گرم مشروب خوب پئیں۔ پرہیز نہ ہوتو انڈے‘ مصالحے اور سالن‘ مچھلی‘ کباب وغیرہ زیادہ کھائیں۔ کھانے کے بعد
اگر گُڑ مل جائے یا اگر شہد ہو تو استعمال کریں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ورزش کریں۔ بہت سی ورزشیں کرسی یا پلنگ پر بھی کی جاسکتی ہیں اس طرح دوران خون تیز رہے گا اور جسم میں حرارت بھی پیدا ہوگی۔ ورزش سے قبل کپڑے کم تو کئے جاسکتے ہیں لیکن ورزش کے بعد گرم کپڑے دوبارہ پہن لینا چاہئیں۔مناسب تو یہی ہے کہ کسی فرد میں سردی لگنے کی علامات ظاہر ہوں تو طبی امداد فوری طور پر حاصل کی جائے۔ لیکن اس وقت تک درج ذیل تدابیر اختیار کرنا مفید اور ضروری ہے۔مریض کے جسم میں بتدریج حرارت پیدا کریں۔ فوری طور پر تیزی کے ساتھ گرمی پہنچانے سے خون کی گردش جلد کی طرف ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں قلب اور دماغ کو خون کی فراہمی میں کمی واقع ہوسکتی ہے مریض جوان ہو یا بوڑھا اسے گرم بستر میں حرارت پہنچانے کے علاوہ 40 سنٹی گریڈ گرم پانی سے غسل بھی دینا چاہیے لیکن ہوا سے بچا کر۔مریض کو گرم مشروبات‘ مثلاً گرم چاکلیٹ‘ سونٹھ دار‘ دار چینی والا دودھ یا دونوں کی چائے مناسب ہوتو دیسی گُڑ ڈال کر پلائیے۔ دیسی براؤن شکر‘ گُڑ ‘ ادرک اور شہد کھانے سے حرارت پیدا ہوتی ہے۔ مریض کے جسم کے قریب گرم بوتل وغیرہ نہیں رکھنی چاہیے اس سے بھی دوران خون قلب دماغ اور دیگر اندرونی اعضاء سے ہٹ کر بیرون جسم کی طرف ہوگا۔ اکثر اوقات چونکہ سردی سے بوڑھوں میں حس گھٹ جاتی ہے ان کے جسم گرم بوتل‘ اینٹ یا پتھر سے جھلس کر زخمی بھی ہوسکتے ہیں۔
گھر سے باہر احتیاط: جاڑوں میں ہمارے ہاں بھی لوگ سیر و تفریح کیلئے باہر نکلتے ہیں۔ پروگرام صبح سے شام تک ہو تو عام احتیاطی تدابیر کافی ہوتی ہیں۔ لیکن جھیل‘ ندی کے کنارے کیمپ ضروری ہو تو احتیاطی تدابیر کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ مثلاً کیمپ کے اندر محفوظ چولہے موجود ہوں تو کھانے کی اشیاء کی کمی بھی نہیں ہونی چاہیے تاکہ ناگہانی بارش یا برف باری کی صورت میں کسی چیز کی کمی نہ ہونے پائے۔ اسی طرح زائد جوڑے‘ کمبل چادریں وغیرہ بھی ساتھ ہونی چاہئیں۔ گیلے کپڑے ہوں تو فوراً اتار کر خشک کپڑے پہنیں۔ اگر وہاں کسی کو ٹھنڈ لگ جائے تو گرم مشروبات جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے بار بار پلاتے رہیے اور اس سے مسلسل باتیں کیجئے تاکہ وہ ہوش میں رہے اور اس کا دھیان بھی بٹا رہے اور اس اثناء میں جلداز جلد طبی امداد حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں